دل،جگر،کان، آنکھ، دماغ اور دیگر
جسمانی اعضا کی اہمیت و ا فادیت سے ہم بخوبی واقف ہیں
کہ ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح و سا لم نہ ہو تو
انسانی زندگی کس حدتک مجبور و بے بس اور لاچار ہو جاتی ہے گو کہ
ان اعضا کے کام الگ الگ ہیں؛ تاہم ان میں کامل ہم آہنگی پائی
جاتی ہے،جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور محال ہے، مثلاً
سر میں درد ہو تو دوا کے لیے پاوٴں چل کر جاتے ہیں،آنکھ
آنسو بہاتی ہے ،زبان اسے بیان کرتی ہے ،دل و دماغ اسے محسوس
کرتے ہیں،ہاتھ دوا پلا نے میں مددگار ہوتے ہیں،وغیرہ۔اگر
ان اعضا و جوارح میں یہ مقابلہ آرائی شروع ہو جا ئے کہ کون قیمتی،کون
اعلیٰ،کون بہتر،کون افضل ہے توظاہر بات ہے کہ جسم میں فساد پھوٹ
پڑ ے گا اورپھر ایسے جسم کا خدا حافظ! اس جسم کے بے شمارتقاضے ہیں،مثلاً
غذا،پانی،ہوا،نیند،راحت و سکون وغیرہ۔ اگر انسانی
جسم کے یہ تقاضے بر وقت پورے نہ ہوں تو انسانی زندگی کی
نشو و نما اور قیام و بقا خطرے میں پڑ جائے۔
ٹھیک اسی طرح اسلام کے بیشمار
تقاضے ہیں،مثلاًمساجد،مدارس ،خانقاہوں کی تعمیر و توسیع
اور ان کے انتظامات،دارالقضا ٰ ء کا قیام؛ تاکہ طاغوت سے مکمل طور
پربچا جا سکے ، قرآن مجید، حدیث شریف اور دیگر دینی
کتابوں کی طباعت و اشاعت،مسلمانوں کے عا ئلی قوانین میں
حکومت کی مداخلت پرروک، بیوہ و مطلقہ کے نکاحِ ثانی کا انتظام ،فسادزدگان
اور قدرتی آفات میں گھرے ہوئے مسلمانوں کی بازآبادکاری،جیل
میں قید بے قصور مسلمانوں کی رہائی کے لیے کوششیں،
دینی و اسلامی تعلیمات سے دور مسلمانوں میں ۱یمان و یقین اوراعمالِ صالحہ کی بنیادی
محنت ، غیر مسلموں تک ان کی اپنی مادری زبانوں میں
اسلامی لٹریچر کی تدوین و اشاعت، وغیرہ۔یہ
فہرست بہت طویل ہے ۔۱ور
اللہ کا شکر ہے کہ ان سارے امورو تقاضوں کو امتِ مسلمہ کے بے شمارافراد، تنظیمیں
و تحریکیں،جماعتیں،حلقے اور گروہ جزوی طور پر انجام دے
رہے ہیں؛ چنانچہ ان میں سے کسی کے لیے بھی یہ
ممکن نہیں کہ ان میں سے ہر ہر کام اور ہر ہر تقاضے کو کما حقہ پوری
طرح انجام دیے جاسکے۔ ان کے لیے اس لیے زیادہ بہتر
اور قابلِ عمل صورتِ حال یہی ہے کہ اپنے ذوق و شوق، رغبت و صلاحیت
، طاقت و قو ت اور حوصلہ و ہمت کے مطابق،فنا فی اللہ و فنا فی الرسول
کے جذبہ کے تحت ،ان تقاضوں کو انجام دیں، اگر سارے تقاضوں کی طرف توجہ
کی جائی گی تو ایک ہوگا نہ د وسرا۔یہی
امت میں اتحاد کی ممکن صورت بھی ہے ۔۔ان کے لیے
مزید ضروری ہے کہ رمزو ایماء اور اشارہ و کنایہ میں
بھی ایک دوسرے کی طرف طعن وتشنیع،بے جا تنقید، تنقیص،تقابل،تفاخر
وغیرہ سے آخری حد تک پر ہیز کیا جائے کہ یہ چیزیں
امت کے اتحاد کے لیے سمِ قاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔دوسروں کی
محنتوں اور خدمات کا اعتراف ہو۔نیز جو کوئی جس کام کا اہل ہو
اسے وہ کام کرنے دیا جائے۔اور جس کسی کے اندر کسی مخصوص
کام کو بجالانے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ اس سے دور ہی رہے تو بہتر
ہے کہ اس سے دوہرا نقصان ہے ، ایک کام کے بگڑنے کا اور دوسرا کسی قا
بل شخص کی صلاحیتوں کے عدمِ استعمال کا۔ ایک دوسروں کو
جوڑ کررکھیں،ا ور سب سے آسان یہ ہے کہ خود سب سے جڑجائیں۔ان
کے لیے مزید ضروری ہے کہ امت کے وسائل، مثلاً افرادی
قوت،پیسہ روپیہ وغیرہ کا استعمال بڑی خوبی و عمدگی
کے ساتھ حسبِ ضرورت کریں کہ ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال کا مطلب
اسلام کے دوسرے تقاضوں کے لیے وسائل کی کمی کی صورت میں
ہی ظاہر ہوگا، جس کا لازمی نتیجہ مختلف تقاضوں کے پورا نہ ہونے
کی وجہ سے امت کی کمزوری کے سوا کچھ نہیں۔جس طرح
انسانی جسم کے کسی عضو کا کمزور یا ناقص ہو جانا دوسرے اعضا کی
کارکردگی کو متاثر کرتا ہے ،ٹھیک اسی طرح ملتِ اسلامیہ کی
کسی تنظیم کا کمزور و نحیف ہونا خود بخود دوسری تنظیموں
کو کمزور بناتا ہے۔ الغرض تنظیموں ، تحریکوں وغیرہ کا
وجود ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہے۔
اتّحاد کے لیے ضروری ہے کہ
عصبیت سے پوری طرح بچا جائے۔علاقہ،نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن،
زبان ،خاندان،حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی
عصبیت ہے۔ ا گر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر،تحریریا
عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر
ممکن کوشش کی جائے کہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی
چیز ہے۔دیا سلائی کی ایک سلائی پوری
دنیا کو جلا سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی
پوری دنیا میں فتنہ برپا کر سکتا ہے؛ اس لیے ضروری
ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے نیز ہر حال میں اتحاد
کو قائم و دائم رکھا جائے؛ کیوں کہ یہ ایسی اجتماعی
ضرورت ہے، جس کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقا و ترقی
کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اتحاد کی راہ کی سب سے بڑی
رکا وٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی
ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے، یہ عقل کو ماؤف اور مفلوج
کرتی ہے،یہ تفریق اور بھید بھاؤ پیدا کرتی
ہے،اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے۔عصبیت اتحاد کی
ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا۔
بالفاظ دیگر،جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہو سکتا۔عصبیت
کو چھوڑے بغیر امت میں اتحاد کی آرزو اور تمنا رکھنا ایسا
ہی فضول ہے، جیسا کہ مشرق کی سمت میں سفر کرنا اور مغرب میں
پہنچنے کے خواب دیکھنا۔ عصبیت ، اتحاد کے لیے زہر ہلا ہل
ہے۔پیارے آقا حضرت محمد … نے سخت ا لفاظ میں اس سے بچنے کی
تاکید فرمائی ہے؛چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہواہے
کہ جو عصبیت پر مرا وہ جہالت پر مرا۱ور جو عصبیت کا علمبردار ہو وہ ہم میں سے نہیں،اور
جو عصبیت پر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جس کی موت عصبیت
پر ہو وہ بھی ہم میں سے نہیں۔ اتحاد ہی سب سے بڑا
اصول ہے اور سب سے بڑی بے اصولی آپس کا تفرق ۔اتحاد زندگی
ہے اور نا اتفاقی موت۔ اتحاد ترقی کی اولین شرط ہے ۔
اور نا اتفاقی بر بادی کا پہلا زینہ ۔متحد رہیں گے
تو زمانہ ٹھو کر میں ہوگا اور منتشر ہوں گے ُ تو زمانہ کی ٹھو کر میں
ہم ہوں گے ۔یہی تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہے؛ مگر شایدتاریخ
کایہی سب سے بڑا سبق ہے ،جسے مسلمانوں نے سب سے زیادہ بھلا رکھا
ہے۔آج بھی وہ آپس میں ایسی بری طرح بر سر پیکار
ہیں، جیسے انھوں نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا ہی نہیں۔
پیارے آقا… نے عصبیت کی ساری دیواروں کو گرا تے
ہوئے کالے گورے،عربی عجمی،چھوٹے بڑے،بادشاہ غلام، کے فرق کو مٹا کرعرب
کے ابو بکر،حبشہ کے بلال،روم کے صہیب، فارس کے سلمان؛ وغیرہ کی
مخفی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر نہ صرف رضی اللٰہ عنہم
ورضو عنہ کے درجہ پر پہنچا دیا تھا؛ بلکہ اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے میں
بھی استعمال کرکے انسانیت کے باغ کو سینچ کر نوعِ انسانی
کو ایک خاندان میں تبدیل کر دیا تھا،جس کے نتیجے میں
انسانی معاشرہ ایک بے خار گلد ستہ بن گیا تھا؛مگر ہم امتیوں
کا حال یہ ہے کہ عصبیت کا طوق غلامی گلے میں ڈال کر امت
کے شیرازہ کو بکھیر تے ہوئے اپنے سے قریب لوگوں کو دور کرکے
انسانیت کو خانہ در خانہ تقسیم کرتے ہوئے، ا لله کے بندوں کو اس کے
خالق و مالک سے دور کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔شاید اس زمین
کے اوپر اور آسمان کے نیچے آقا کی منشا اور اس کے غلاموں کے کاموں میں
اس سے زیادہ تضاد کہیں نہیں۔
قرآن مجید اور احادیثِ
مبارکہ میں بڑی کثرت سے اتحاد کو قائم رکھنے اور آپسی خلفشارو
انتشار سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے؛مگر ان سب کے باوجود
بھی خلفشارو انتشارعام مرض ہے اور امت کو گھن کی طرح کھائے جارہا ہے
اور عصبیت کے روگ کی بوہر جگہ محسوس ہوتی ہے،جس کا صاف مطلب یہ
ہے کہ قرآن مجید کی روشن آیتیں اورپیارے آقا حضرت
محمد… کی احادیثِ مبارکہ اب ہمارے علم کا حصہ نہیں رہیں؛
بلکہ وہ ہمارے ذہن کے گوشے میں معلومات کے درجہ میں باقی ہیں،ورنہ
کیا عجب ہے کہ وہ ہماری عملی زندگی کا حصہ نہیں،
بعض لوگ ہمارے انتشار کو اغیار کی سازشوں کا حصہ قرار دے کر اپنی
غلطی سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر یہ
مان بھی لیا جائے کہ اس میں اغیار کی ریشہ
دوانیاں شامل حال ہیں تب تو یہ بات ثابت ہوئی جاتی
ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے؛ مگر ہم اپنی ایمانی
فراست و بصیرت کو کام میں نہ لا سکے، جس کے لیے ہم خود ذمہ دار
ہیں؛بلکہ زیادہ صاف لفظوں میں اگر کہہ دیا جائے تو یہ
ایسا ہی ہے، جیسا کہ کوئی شخص اپنے گناہوں کے لیے شیطان
کو ذمہ دار ٹھرائے۔ بعض لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اغیار
اپنے باطل افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے امت
مسلمہ کے افراد کو عورت، دولت و شہرت،جاہ و منصب اور حکومت و سیاست کی
لالچ دے کر امتِ مسلمہ کے اندر پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر اسے بھی درست مان لیا جائے تب بھی قصور ہمارا اپنا ہی
سامنے آتا ہے کہ ہم نے اپنے افراد میں ا لله تعالیٰ اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید محبت، جنت کا شوق،جہنم
کا خوف اور آخرت میں خدا کے حضور جوابدہی کا احساس پیدا کرنے میں
بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔
***
---------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 4،
جلد: 98 ، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء